حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہما اور
ان کا مکان
یہ فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ کے بیٹے تھے
بچپن میں والد کے ساتھ مسلمان ہو گئے تھے اور کم سنی ہی کی وجہ سے غزوہ بدر میں
شرکت کی اجازت نہ ملی تھی، اتباع سنت میں بڑے مشہور ہوئے جہاں کہیں آنحضرت صلی
اللہ علیہ وسلم کو سفر میں اترتے یا نماز پڑھتے دیکھا تھا وہاں جب کبھی پہنچنے کا
اتفاق ہو جاتا کیا مجال کہ بغیر اترے یا بغیر نماز پڑھے گزر جاتے۔ 83 ہجری میں
چوراسی برس کی عمر میں وفات پائی مکہ میں انتقال کرنے والے صحابہ رضی اللہ تعالی
عنہ میں آپ سب سے آخری صحابی رضی اللہ تعالی عنہ تھے۔
آپ کا مکان:- قبلہ کی جانب محراب سے مشرق کی طرف
واقع تھا، اسی میں وہ ستون بھی تھا جس کے اوپر کھڑے ہو کر حضرت بلال رضی اللہ
تعالی عنہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں اذان دیا کرتے تھے
قبلہ کی جانب سے جو مکانات مسجد سے متصل تھے اور
جن کے دروازے مسجد النبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں کھلا کرتے تھے ان میں حضرت عبد
اللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہ کا بھی مکان بھی تھا۔ اور اس کا دروازہ دریچہ آل
عمر کے نام سے مشہور تھا
اسی مکان کے بارے میں صاحب عمدہ الاخبار میں
لکھا ہے کہ وہ مکانات جو کبھی دیار عشرہ سے مشہور تھے سب گرا دئے گئے البتہ اس
زمین کو پکی دیوار سے گھیر کر باہر سے ایک مضبوط دروازہ لگا دیا گیا جس کے اوپر
لکھا دیا گیا "دیار آل عمر" اور اندرپھول پھلواری لگا کر پورے احاطے کو
سبزہ زار بنا دیا گیا۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مواجہہ شریفہ کے سامنے سب
کا سب ہرا بھرا چمن بن گیا
چار دیواری کے ذریعے حد بندی کر دینے کی وجہ سے
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے مکان کی یہ جگہ ماضی قریب تک متعین و
مشخص تھی مگر 1357 ہجری مطابق 1955 میں سعودی حکومت کی پہلی توسیع کے دوران ساری
دیواریں منہدم کر دی گئیں اس لئے اب اس مکان کی کچھ زمین جنوبی ہال کے اندر اور
زیادہ تر حصہ ہال سے متصل باہر کشادہ میدان میں سمجھنا چاہیے
دریچہ آل عمر:- مواجہہ شریف کے بالمقابل قبلہ کی
دیوار میں جو لوہے کی کھڑی ہے وہ دریچہ آل عمر کے محل و قوع کی علامت ہے یہ دریچہ
چودہ صدیوں کے طویل عرصہ کے دوران متعدد مرحلوں سے گزر کر موجودہ حالت تک پہنچا ہے
پہلا مرحلہ:- ام المومنین حضرت حفصہ رضی اللہ
تعالی عنہا کا مکان سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا کے مکان سے جنوب میں
یعنی قبلہ کی سمت واقع تھا جب حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ نے 29 ہجری میں
مسجد النبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی توسیع کے لیے قبلہ کی دیوار کو آگے بڑھا کر اس
کی جگہ پر لانا چاہا جہاں آج وہ ہے تو حضرت حفصہ رضی اللہ تعالی عنہا کے مکان کا
بھی کچھ حصہ مسجد میں شامل کیا اور کے عوض انہیں دوسرا مکان مرحمت فرمایا اور مسجد
میں آنے کے لیے جیسا پہلے ان کا رستہ تھا ویسا رستہ بھی بنوایا
ان زبالہ کی روایت ہے جب حضرت عثمان رضی اللہ
تعالی عنہ کو توسیع مسجد کے لیے حضرت حفصہ رضی اللہ تعالی عنہا کے مکان کی ضرورت
پڑی تو حضرت حفصہ رضی اللہ تعالی عنہا نے فرمایا میں کس رستے سے مسجد میں جاونگی ؟
تو حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا ہم آپ کے لیے مکان اور اسی جیسا رستہ
بنوا دیں گے چنانچہ حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ نےاپنا وعدہ پورا کیا
دوسرا مرحلہ:- جب حضرت عمر بن عبد العزیز نے 91
ہجری میں مسجد بنوی صلی اللہ علیہ وسلم کی توسیع فرمائی تو ان کا ارادہ ہوا کی حضرت
حفصہ رضی اللہ تعالی عنہا کے باقی ماندہ مکان کو بھی خرید کر مسجد میں شامل کر لیا
جائے آل عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے لوگوں نے کہا: ہمیں معاوضہ نہیں چاہیے یہ حضرت
حفصہ رضی اللہ تعالی عنہا کا حق ہے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی رہائش گاہ تھی
حضرت عمر بن عبد العزیز رحمۃ اللہ علیہ نے کہا کہ اس مکان کے بغیر توسیع عمارت نا
مکمل رہے گی ان لوگوں نے کہاں آپ کی مرضی ہے البتہ ہمارا رستہ بند نہیں ہونا چاہیے
حضرت عمر بن عبد العزیز نے کہا میں آپ لوگوں کے مسجد میں آنے کے لیے ایک دروازہ
لگا دونگا اور اس رستہ کے بدلے میں دار عقیق کا آپ کو مالک بناتا ہوں۔ یہ تجویز
منظور ہو گئی چنانچہ حضرت عمر بن عبد العزیز نے آل عمر کے اس مکان کو منہدم کر کے
مسجد میں داخل کر لیا۔ اور ان کے لیے پہلے سے زیادہ کشادہ راستہ بنوادیا جبکہ پہلے
تنگ رستہ تھا مشکل سے ایک آدمی ہی گزر سکتا تھا
تیسرا مرحلہ:- آل عمر اسی دروازہ سے مسجد نبوی
صلی اللہ علیہ وسلم میں آیا کرتے تھے۔ مگر جب خلیفہ مہدی بن منصور عباسی نے 165
ہجری میں قبلہ کی طرف ستونوں کی پہلی رو پر مقصورہ نبوا دیا گیا اور آل عمر کو اس
رستہ سے مسجد میں آنے سے روک دیا گیا تو ان لوگوں نے احتجاج کیا بالآخر صلح اس پر
ہوئی کہ دروازہ بند کر کے وہاں لوہے کی کھڑکی لگا دی جائے گی اور ان کے رستے کے
لیے ایک سرنگ زیر زمین کھود دی جائے گی جو مقصورہ سے باہر ستونون کی دوسری رو میں
جا کر نکلے ایک عرصہ تک اسی سرنگ سے آل عمر مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں آیا
کرتے تھے
لیکن جب یہ آل عمر ایک ایک کر کے دنیا سے اٹھ
گئے تو اس سرنگ پر تالا ڈال دیا گیا۔ صرف ایام حج میں حاجیوں کی زیارت کے لیے اسے
کھولا جاتا تھا۔ اس کے تالے کی کنجی بھی ایسے لوگوں کے پاس تھی جو آل عمر میں سے
نہ تھے، زائرین کی بھیڑ جب بڑھنے لگی اور مردوں اور عورتوں کے اختلاط سے اس جگہ کا
تقدس پامال ہونے لگا تو لوگوں کے مطالبہ پر سلطان اشرف قایتبائی نے اس دروازہ کو
بند کرنے کا حکم دے دیا نتیجۃ شیخ حرم نے 4 ذیقعدہ 888 ہجری بمطابق 1483 کو مسجد
کے باہرسے پختہ دیوار کے ساتھ اس سرنگ کے دروازہ کو بند کرا دیا، اور مسجد کے اندر
جو دروازہ تھا اس کو نکال کر مٹی بھروادی اور زمین کو برابر کر کے ہمیشہ کے لیئ
سرنگ کا نام ونشان مٹا دیا اور اب قبلہ کی دیوار میں ایک کھڑکی کے سوا کچھ بھی
نہیں کو دریچہ آل عمر کی جگہ بطور علامت اب تک باقی چلی آ رہی ہے
حوالہ جات: وفاء الوفا، عمدۃ الاخبار، تحقیق النصرۃ، المعارف، اسد الغابۃ