Pages

Ads 468x60px

حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ

صحیح بخاری:جلد سوم:حدیث نمبر 2087      
  عبداللہ بن محمد بن اسماء، جویریہ، مالک، زہری، حمید بن عبدالرحمن، مسور بن مخرمہ سے روایت کرتے ہیں وہ لوگ جنہیں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے خلافت کا اختیار دیا تھا جمع ہوئے اور مشورہ کیا کہ ان لوگوں سے عبدالرحمن نے کہا کہ میں تم سے اس معاملہ میں جھگڑنے والا نہیں ہوں، لیکن اگر تم چاہو تو تم ہی میں سے کسی کو تمہارے لئے منتخب کر دوں، چنانچہ ان لوگوں نے یہ معاملہ عبدالرحمن پر چھوڑ دیا جب ان لوگوں نے عبدالرحمن کے پیچھے ہوئے یہاں تک کہ ان بقیہ لوگوں میں سے کسی کے پاس ایک آدمی بھی نظر نہیں آتا تھا لوگوں عبدالرحمن سے ان راتوں میں مشورہ کرتے رہے یہاں تک کہ جب وہ رات آئی جس کی صبح میں ہم لوگوں نے حضرت عثمان کے ہاتھ پر بیعت کی تھی، مسور کا بیان ہے کہ تھوڑی رات گزر جانے کے بعد عبدالرحمن نے میرا دروازہ اس زور سے کھٹکھٹایا کہ میری آنکھ کھل گئی انہوں نے کہا کہ میں تمہیں سوتا ہوا دیکھتا ہوں حالانکہ خدا کی قسم، ان راتوں میں میری آنکھ بھی نہیں لگی، تم چلو اور زبیر کو میرے پاس بلاؤ میں ان دونوں کو بلا لاؤ، چنانچہ میں نے انہیں بھی بلا لیا، ان سے بہت رات گئے تک سرگوشی کرتے رہے، پھر حضرت علی کے پاس سے اٹھے تو ان کے دل میں خلافت کی خواہش تھی، اور عبدالرحمن کو ان کی خلافت سے اختلاف امت کا اندیشہ تھا، پھر عبدالرحمن نے کہا حضرت عثمان کو بلا لاؤ تو ان سے سرگوشی کرتے رہے، یہاں تک کہ صبح کی اذان نے ان کو جدا کیا، جب لوگوں کو صبح کی نماز پڑھائی اور یہ لوگ منبر کے پاس جمع ہوئے تو مہاجرین اور انصار میں سے جو لوگ موجود تھے ان کو بلا بھیجا، اور سردار لشکر کو بلا بھیجا، یہ سب لوگ حج میں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کیساتھ شریک ہوئے تھے، جب سب لوگ جمع ہو گئے تو حضرت عبدالرحمن نے خطبہ پڑھا پھر کہا کہ اما بعد اے علی میں نے لوگوں کی حالت پر نظر کی ہے تو دیکھا کہ وہ عثمان کے برابر کسی کو نہیں سمجھتے ہیں اس لئے تم اپنے دل میں میری طرف سے کچھ خیال نہ کرنا، تو حضرت علی نے (حضرت عثمان سے کہا) میں اللہ اور اس کے رسول اور آپ دونوں خلیفہ کی سنت پر تمہارے ہاتھ پر بیعت کرتا ہوں عبدالرحمن نے بھی بیعت کی اور تمام لوگوں نے مہاجرین و انصار، سرداران لشکر اور مسلمانوں نے بیعت کی۔
مسند احمد:جلد اول:حدیث نمبر 394     
 ابوسلمہ بن عبدالرحمن کہتے ہیں کہ جن دنوں حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ محصور تھے، ایک مرتبہ انہوں نے اپنے گھر کے بالاخانے سے جھانک کر فرمایا کہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر رہنے والوں کو اللہ کا واسطہ دے کر " یوم حراء " کے حوالے سے پوچھتا ہوں کہ جب جبل حراء ہلنے لگا، اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر اپنا پاؤں مار کر فرمایا اے جبل حراء! ٹھہرجا، کہ تجھ پر ایک نبی، ایک صدیق اور ایک شہید کے کوئی نہیں ہے، اس موقع پر میں موجود تھا؟ اس پر کئی لوگوں نے ان کی تائید کی۔ پھر انہوں نے فرمایا کہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر رہنے والوں کو اللہ کا واسطہ دے کر " بیعت رضوان " کے حوالے سے پوچھتا ہوں کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے مشرکین مکہ کی طرف بھیجا تھا اور اپنے ہاتھ کو میرا ہاتھ قرار دے کر میری طرف سے میرے خون کا انتقام لینے پر بیعت کی تھی؟ اس پر کئی لوگوں نے پھر ان کی تائید کی۔ پھر حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر رہنے والوں کو اللہ کا واسطہ دے کر پوچھتا ہوں کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا تھا جنت میں مکان کے عوض ہماری اس مسجد کو کون وسیع کرے گا؟ تو میں نے اپنے مال سے جگہ خرید کر اس مسجد کو وسیع نہیں کیا تھا؟ اس پر بھی لوگوں نے ان کی تائید کی۔ پھر انہوں نے فرمایا کہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ رضی اللہ عنہم کو اللہ کا واسطہ دے کر " جیش عسرۃ " (جو غزوہ تبوک کا دوسرا نام ہے) کے حوالے سے پوچھتا ہوں جب کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا آج کون خرچ کرے گا؟ اسکا دیا ہوا مقبول ہوگا، کیا میں نے اپنے مال سے نصف لشکر کو سامان مہیا نہیں کیا تھا؟ اس پر بھی لوگوں نے ان کی تائید کی۔ پھر انہوں نے فرمایا کہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ رضی اللہ عنہم کو اللہ کا واسطہ دے کر " بیر رومہ " کے حوالے سے پوچھتا ہوں جن کا پانی مسافر تک کو بیچا جاتا تھا، میں نے اپنے مال سے خرید کر مسافروں کے لئے بھی وقف کر دیا، کیا ایسا ہے یا نہیں ؟ لوگوں نے اس پر بھی ان کی تائید کی۔


مسند احمد:جلد اول:حدیث نمبر 495       
 مسلم کہتے ہیں کہ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے اپنی زندگی کے آخری دن اکٹھے بیس غلام آزاد کیے، شلوار منگوا کر مضبوطی سے باندھ لی حالانکہ اس سے پہلے زمانہ جاہلیت یا زمانہ اسلام میں انہوں نے اسے کبھی نہ پہنا تھا اور فرمایا کہ میں نے آج رات خواب میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرات شیخین کو دیکھا ہے یہ حضرات مجھ سے کہہ رہے تھے کہ صبر کرو، کل کا روزہ تم ہمارے ساتھ افطار کروگے، پھر انہوں نے قرآن شریف کا نسخہ منگوایا اور اسے کھول کر پڑھنے کے لئے بیٹھ گئے اور اسی حال میں انہیں شہید کر دیا گیا جب کہ قرآن کریم کا وہ نسخہ ان کے سامنے موجود تھا۔

 

Sample text

Sample Text

Sample Text