صحیح مسلم میں ہے کہ ایک دفعہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم اپنے گھر میں آرام فرما رہے تھے کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ تشریف لائے آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) ویسے ہی لیٹے رہے ۔۔۔حضرت ابوبکر (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) بات کر کے چلے گئے۔ ۔
پھر حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ تشریف لائے تو آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) لیٹے رہے حضرت عمر (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) بات کر کے چلے گئے پھر حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ تشریف لائے تو آپ (صلی اللہ علیہ وسلم)ا اُٹھ بیٹھے اور اپنے کپڑے ٹھیک کر لئے۔
یہ دیکھ کر حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بولیں۔۔
یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) ابوبکر(رضی اللہ تعالیٰ عنہ) اور عمر(رضی اللہ تعالیٰ عنہ)کے لئے تو آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نہیں اٹھے۔لیکن عثمان (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) کے لئے اٹھ بیٹھے۔
نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا“ کیا میں اُس شخص سے حیا نہ کروں جس سے فرشتے بھی شرماتے ہیں“۔
حضرتے ابو سعید خذری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی پاک(صلی اللہ علیہ وسلم) کو اوّل شب سے صبح تک حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے لئے دعا مانگتے سنا ہے کہ “اے اللہ ! میں عثمان سے راضی ہوں ‘تو بھی اُس سے راضی ہو جا“۔
نبی پاک (صلی اللہ علیہ وسلم) کی صاجزادی اور جناب عثمان غنی (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) کی اہلیہ حضرت رقیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتی ہیں کہ میں آپ(صلی اللہ علیہ وسلم) کے بالوں میں کنگھی کر رہی تھی کہ آپ(صلی اللہ علیہ وسلم) نے مجھ سے پوچھا ۔
“تمھارے ساتھ عثمان کا سلوک کیسا ہے؟“۔میں نے عرض کی۔۔“یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) بہت اچھا ہے“۔
اِس پر نبی (صلی اللہ علیہ وسلم ) نے فرمایا “میری بیٹی اُن کی تکریم کیا کرو وہ اخلاق میں سب صحابہ کرام(رضی اللہ تعالیٰ عنہ) سے زیادہ مجھ سے مشابہ ہیں“۔
علامہ زمخشری نے “الموافقہ بین اہل بیت و الصحابہ “ میں عبد خیر کی ایک طویل رویت درج کی ہے جس کا خلاصہ ہے کہ میں نے میدان ِ کوفہ میں حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو وضو کروایا وہ بولے ۔۔اے عبدِ خیر پوچھو جو پوچھنا چاہتے ہو۔
میں نے عرض کیا اے امیر المومینین کیا پوچھوں۔۔
فرمانے لگے جس طرح تم نے مجھے وضو کروایا ہے اِ سی طرح میں نے ایک دفعہ اللہ پاک کے آخری رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو وضو کروایا تھا ۔وضو کے بعد میں نے اُن سے پوچھا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) قیامت کے روز سب سے پہلے حساب کے لئے کون بلایا جائے گا؟۔
نبی پاک(صلی اللہ علیہ وسلم) نے یکِ بعد دیگر ے چار نام لئے ،محمد(صلی اللہ علیہ وسلم)،ابوبکر(رضی اللہ تعالیٰ عنہ) عمر(رضی اللہ تعالیٰ عنہ) علی(رضی اللہ تعالیٰ عنہ)۔
جو باری باری اپنے رب کے حضور ایک مدت،دو گنی مدت،تین گنی مدت اور چار گنی مدت کے بالترتیب کھڑے ہوں گے اور مغفرت کے بعد واپس آ جا ئیں گے۔میں نے عرض کی یا رسول اللہ(صلی اللہ علیہ وسلم) عثمان بن عفان (رضی اللہ تعالیٰ عنہ)؟۔
یعنی اآپ(صلی اللہ علیہ وسلم) اُن کا نام نہیں لیا۔
نبی پاک(صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا کہ چونکہ عثمان (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) میں بہت حیا ہے اِس لئے میں نے اللہ پاک سے دعا کی تھی کہ اُن کو حساب کے لئے کھڑا نی کیا جائے اللہ پاک نے میری شفاعت قبول فرما لی۔۔
حضرت عثمان غنی (رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا خاندان اور قبولِ اسلام۔۔
حضرت عثمان غنی کا سلسلہ نسب پانچویں پشت میں عبد مناف پر نبی (صلی اللہ علیہ وسلم ) سے جا ملتا ہے۔
حضرت عثمان کی نانی بیضا (ام الحکیم) حضرت عبد اللہ بن عبد المطلب کی سگی بہن ہیں ۔اور رسول پاک (صلی اللہ علیہ وسلم) کی پھو پھی ہیں۔۔
آپ (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) کا تعلق قبیلہ قریش کی ایک اہم شاخ بنو امیہ سے تھا۔آپ(رضی اللہ تعالیٰ عنہ) کے والد گرامی کا نام عفان تھا۔۔آپ نبی پاک(صلی اللہ علیہ وسلم) سے چھ سال چھوٹے تھے۔۔آپ(رضی اللہ تعالیٰ عنہ) کا پیشہ تجارت تھا اور مکہ کے امیر لوگوں میں شمار ہوتے تھے۔۔
ذوالنورین۔۔۔
نبی پاک (صلی اللہ علیہ وسلم) نے پہلے حضرت رقیہ (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) کی شادی جناب عثمان سے کی پھر اُنکی وفات کے بعد دوسری صاجزادی ام کلثوم (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) بھی جناب عثمان (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) سے بیاہ دیں ۔۔اِس لئے آپ(رضی اللہ تعالیٰ عنہ) کو ذوالنورین کا خطاب ملا۔۔۔
کچھ عرصہ بعد جب حضرت ام کلثوم (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) بھی فوت ہو گئیں تو نبی پاک (صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا کہ اگر میری کوئی اور بیٹی بھی ہوتی تو وہ عثمان (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) کو دے دیتا۔۔۔ایک دوسری روایت میں ہے کہ نبی پاک (صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا کہ اگر میری دس بیٹیاں بھی ہوتیں تو اُن سب کی (یکے بعد دیگرے) تم سے شادی کر دیتا۔۔۔(بحوالہ حضرت عثمان(رضی اللہ تعالیٰ عنہ) کے سرکاری خطوط ص 33)
کاتب وحی۔۔۔۔
حضرت عثمان (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) نے ایک مدت تک کاتب وحی کی زمہ داری انجام دی جو کہ ایک سعادت ہے ۔۔ایسے لوگوں کی تعریف قرآن میں بھی آئی ہے۔۔۔اِس کے علاوہ آپ (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) نے نبی پاک (صلی اللہ علیہ وسلم) کے نجی خطوط بھی کافی عرصہ لکھے۔۔آپ حافظ قرآن تھے اور نبی پاک (صلی اللہ علیہ وسلم) سے کافی انسیت اور تعلق کی بنا پر احادیث کا بیش بہا ذخیرہ آپ کے ذہن میں تھا۔
حبشہ کی جانب ہجرت!۔
کفار کے ظلم سے تنگ آ کے نبی پاک(صلی اللہ علیہ وسلم) کے حکم سے اپنی بیوی جناب رقیہ کے ساتھ حبشہ کی طرف ہجرت کی۔۔یہ پہلا قافلہ تھا جس نے اسلام کے لئےہجرت کی۔۔۔
خلافت اور شہادت
حضرت عمر فاروق (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) کی شہادت کے بعد آپ (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) خلیفہ بنے۔۔۔آپ ہر تین یا چھ ماہ بعد گوورنروں اور عمال حکومت کے نام ہدایات جارئ کرتے تھے۔۔۔اور پوری حکومتی مشنری کو عدل وا نصاف کے تقاضے پورے کرنے کی تلقین کرتےتھے۔۔
مصر کے بلوائی آپ کو شہید کرنے کے درپے تھے۔۔۔۔اور مختلف سازشوں میں مصروف رہتے تھے۔۔۔۔پھر ساڑھے سات سو بلوایئوں نے ایک خط کابہانہ بنا کر مدینہ پہنچ کر بغاوت کا وہ وقت طے کیا جب مدینہ منورہ کے زیادہ تر لوگ حج کے لئے مکہ گئے ہوئے تھے۔۔
پھر اِن بلوائیوں نے سازش کے تحت مدینہ منورہ پر قبضہ کر کے 35 ہجری میں زیقعد کے پہلے عشرہ میں جناب عثمان غنی (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) کے گھر کا محاصرہ کر لیا۔۔۔۔۔اور آپ(رضی اللہ تعالیٰ عنہ) کا چالیس روز تک کھا نا اور پانی بند کر دیا۔۔۔
اِس دوران جناب علی (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) نے دیگر صحابہ (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) کے ساتھ مل کر باغیوںکا سر قلم کرنے کی اجازت چاہی مگر آپ نہ مانے اور فرمایا کہ“ مجھ سے یہ نہیں ہو گا کہ نبی (صلی اللہ علیہ وسلملی اللہ علیہ وسلم) کا خلیفہ ہو اور آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) کی امت کا ہی خون بہاؤں“۔
ایک موقعہ پر نبی پاک (صلی اللہ علیہ وسلم) نے مجھ سے فرمایا تھا کہ“ اے عثمان (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) ! اللہ پاک تجھے خلافت کی قمیض پہنائیں گے ۔۔جب منافق اِس خلافت کی قمیض کو اتارنے کی کوشش کریں تو اِسے مت اتارنا یہاں تک کہ مجھے آ ملو(یعنی شہید ہو جاؤ)“۔
آپ (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) نے صحابہ (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) سے فرمایا کہ “نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) نے مجھ سے عہد لیا تھا کہ منافق خافت کی قمیض اتارنے کی کوشش کریں گے تم نہ اتارنا۔۔۔۔چنانچہ میں اِس عہد پر قائم ہوں اور صبر کر رہا ہوں“۔
حافظ عماد الدین نے “البدایہ والنھایہ“ میں لکھا ہے کہ باغیوں کی شورش میں سیدنا عثمان غنی (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) نے صبر کادامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا۔۔۔محاصرہ کے دوران آپ(رضی اللہ تعالیٰ عنہ) کا کھانا پینا بند کر دیا گیا۔۔۔چالیس روز کے بھوکے پیاسے 82 سالہ مظلوم اور معصوم خلیفہ حضرت عثمان غنی (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) ذوالنورین کو جمعۃ المبارک 18 زوالحجہ کو روزہ کی حالت میں انتہائی بے دردی سے شہید کر دیا گیا۔۔۔آپ(رضی اللہ تعالیٰ عنہ) کو بچاتے بچاتے آپ(رضی اللہ تعالیٰ عنہ) کی زوجہ محترمہ حضرت نائلہ(رضی اللہ تعالیٰ عنہا) کی دو انگلیاں بھی کٹ گئیں۔۔۔
آپ(رضی اللہ تعالیٰ عنہ) نے 12 دن کم 12 سال تک اسلامی سلطنت قائم کر نے اور نظامِ خلافت کو چلانے کے بعد جامِ شہادت نوش کیا۔۔۔۔