Pages

Ads 468x60px

Featured Posts

مسجد فضیح (مسجد بنو نضیر)


حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہما اور ان کا مکان


حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہما اور ان کا مکان
یہ فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ کے بیٹے تھے بچپن میں والد کے ساتھ مسلمان ہو گئے تھے اور کم سنی ہی کی وجہ سے غزوہ بدر میں شرکت کی اجازت نہ ملی تھی، اتباع سنت میں بڑے مشہور ہوئے جہاں کہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو سفر میں اترتے یا نماز پڑھتے دیکھا تھا وہاں جب کبھی پہنچنے کا اتفاق ہو جاتا کیا مجال کہ بغیر اترے یا بغیر نماز پڑھے گزر جاتے۔ 83 ہجری میں چوراسی برس کی عمر میں وفات پائی مکہ میں انتقال کرنے والے صحابہ رضی اللہ تعالی عنہ میں آپ سب سے آخری صحابی رضی اللہ تعالی عنہ تھے۔
آپ کا مکان:- قبلہ کی جانب محراب سے مشرق کی طرف واقع تھا، اسی میں وہ ستون بھی تھا جس کے اوپر کھڑے ہو کر حضرت بلال رضی اللہ تعالی عنہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں اذان دیا کرتے تھے
قبلہ کی جانب سے جو مکانات مسجد سے متصل تھے اور جن کے دروازے مسجد النبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں کھلا کرتے تھے ان میں حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہ کا بھی مکان بھی تھا۔ اور اس کا دروازہ دریچہ آل عمر کے نام سے مشہور تھا
اسی مکان کے بارے میں صاحب عمدہ الاخبار میں لکھا ہے کہ وہ مکانات جو کبھی دیار عشرہ سے مشہور تھے سب گرا دئے گئے البتہ اس زمین کو پکی دیوار سے گھیر کر باہر سے ایک مضبوط دروازہ لگا دیا گیا جس کے اوپر لکھا دیا گیا "دیار آل عمر" اور اندرپھول پھلواری لگا کر پورے احاطے کو سبزہ زار بنا دیا گیا۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مواجہہ شریفہ کے سامنے سب کا سب ہرا بھرا چمن بن گیا
چار دیواری کے ذریعے حد بندی کر دینے کی وجہ سے حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے مکان کی یہ جگہ ماضی قریب تک متعین و مشخص تھی مگر 1357 ہجری مطابق 1955 میں سعودی حکومت کی پہلی توسیع کے دوران ساری دیواریں منہدم کر دی گئیں اس لئے اب اس مکان کی کچھ زمین جنوبی ہال کے اندر اور زیادہ تر حصہ ہال سے متصل باہر کشادہ میدان میں سمجھنا چاہیے
دریچہ آل عمر:- مواجہہ شریف کے بالمقابل قبلہ کی دیوار میں جو لوہے کی کھڑی ہے وہ دریچہ آل عمر کے محل و قوع کی علامت ہے یہ دریچہ چودہ صدیوں کے طویل عرصہ کے دوران متعدد مرحلوں سے گزر کر موجودہ حالت تک پہنچا ہے
پہلا مرحلہ:- ام المومنین حضرت حفصہ رضی اللہ تعالی عنہا کا مکان سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا کے مکان سے جنوب میں یعنی قبلہ کی سمت واقع تھا جب حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ نے 29 ہجری میں مسجد النبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی توسیع کے لیے قبلہ کی دیوار کو آگے بڑھا کر اس کی جگہ پر لانا چاہا جہاں آج وہ ہے تو حضرت حفصہ رضی اللہ تعالی عنہا کے مکان کا بھی کچھ حصہ مسجد میں شامل کیا اور کے عوض انہیں دوسرا مکان مرحمت فرمایا اور مسجد میں آنے کے لیے جیسا پہلے ان کا رستہ تھا ویسا رستہ بھی بنوایا
ان زبالہ کی روایت ہے جب حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کو توسیع مسجد کے لیے حضرت حفصہ رضی اللہ تعالی عنہا کے مکان کی ضرورت پڑی تو حضرت حفصہ رضی اللہ تعالی عنہا نے فرمایا میں کس رستے سے مسجد میں جاونگی ؟ تو حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا ہم آپ کے لیے مکان اور اسی جیسا رستہ بنوا دیں گے چنانچہ حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ نےاپنا وعدہ پورا کیا
دوسرا مرحلہ:- جب حضرت عمر بن عبد العزیز نے 91 ہجری میں مسجد بنوی صلی اللہ علیہ وسلم کی توسیع فرمائی تو ان کا ارادہ ہوا کی حضرت حفصہ رضی اللہ تعالی عنہا کے باقی ماندہ مکان کو بھی خرید کر مسجد میں شامل کر لیا جائے آل عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے لوگوں نے کہا: ہمیں معاوضہ نہیں چاہیے یہ حضرت حفصہ رضی اللہ تعالی عنہا کا حق ہے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی رہائش گاہ تھی حضرت عمر بن عبد العزیز رحمۃ اللہ علیہ نے کہا کہ اس مکان کے بغیر توسیع عمارت نا مکمل رہے گی ان لوگوں نے کہاں آپ کی مرضی ہے البتہ ہمارا رستہ بند نہیں ہونا چاہیے حضرت عمر بن عبد العزیز نے کہا میں آپ لوگوں کے مسجد میں آنے کے لیے ایک دروازہ لگا دونگا اور اس رستہ کے بدلے میں دار عقیق کا آپ کو مالک بناتا ہوں۔ یہ تجویز منظور ہو گئی چنانچہ حضرت عمر بن عبد العزیز نے آل عمر کے اس مکان کو منہدم کر کے مسجد میں داخل کر لیا۔ اور ان کے لیے پہلے سے زیادہ کشادہ راستہ بنوادیا جبکہ پہلے تنگ رستہ تھا مشکل سے ایک آدمی ہی گزر سکتا تھا
تیسرا مرحلہ:- آل عمر اسی دروازہ سے مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں آیا کرتے تھے۔ مگر جب خلیفہ مہدی بن منصور عباسی نے 165 ہجری میں قبلہ کی طرف ستونوں کی پہلی رو پر مقصورہ نبوا دیا گیا اور آل عمر کو اس رستہ سے مسجد میں آنے سے روک دیا گیا تو ان لوگوں نے احتجاج کیا بالآخر صلح اس پر ہوئی کہ دروازہ بند کر کے وہاں لوہے کی کھڑکی لگا دی جائے گی اور ان کے رستے کے لیے ایک سرنگ زیر زمین کھود دی جائے گی جو مقصورہ سے باہر ستونون کی دوسری رو میں جا کر نکلے ایک عرصہ تک اسی سرنگ سے آل عمر مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں آیا کرتے تھے
لیکن جب یہ آل عمر ایک ایک کر کے دنیا سے اٹھ گئے تو اس سرنگ پر تالا ڈال دیا گیا۔ صرف ایام حج میں حاجیوں کی زیارت کے لیے اسے کھولا جاتا تھا۔ اس کے تالے کی کنجی بھی ایسے لوگوں کے پاس تھی جو آل عمر میں سے نہ تھے، زائرین کی بھیڑ جب بڑھنے لگی اور مردوں اور عورتوں کے اختلاط سے اس جگہ کا تقدس پامال ہونے لگا تو لوگوں کے مطالبہ پر سلطان اشرف قایتبائی نے اس دروازہ کو بند کرنے کا حکم دے دیا نتیجۃ شیخ حرم نے 4 ذیقعدہ 888 ہجری بمطابق 1483 کو مسجد کے باہرسے پختہ دیوار کے ساتھ اس سرنگ کے دروازہ کو بند کرا دیا، اور مسجد کے اندر جو دروازہ تھا اس کو نکال کر مٹی بھروادی اور زمین کو برابر کر کے ہمیشہ کے لیئ سرنگ کا نام ونشان مٹا دیا اور اب قبلہ کی دیوار میں ایک کھڑکی کے سوا کچھ بھی نہیں کو دریچہ آل عمر کی جگہ بطور علامت اب تک باقی چلی آ رہی ہے

 حوالہ جات: وفاء الوفا، عمدۃ الاخبار، تحقیق النصرۃ، المعارف، اسد الغابۃ

حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ

صحیح بخاری:جلد سوم:حدیث نمبر 2087      
  عبداللہ بن محمد بن اسماء، جویریہ، مالک، زہری، حمید بن عبدالرحمن، مسور بن مخرمہ سے روایت کرتے ہیں وہ لوگ جنہیں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے خلافت کا اختیار دیا تھا جمع ہوئے اور مشورہ کیا کہ ان لوگوں سے عبدالرحمن نے کہا کہ میں تم سے اس معاملہ میں جھگڑنے والا نہیں ہوں، لیکن اگر تم چاہو تو تم ہی میں سے کسی کو تمہارے لئے منتخب کر دوں، چنانچہ ان لوگوں نے یہ معاملہ عبدالرحمن پر چھوڑ دیا جب ان لوگوں نے عبدالرحمن کے پیچھے ہوئے یہاں تک کہ ان بقیہ لوگوں میں سے کسی کے پاس ایک آدمی بھی نظر نہیں آتا تھا لوگوں عبدالرحمن سے ان راتوں میں مشورہ کرتے رہے یہاں تک کہ جب وہ رات آئی جس کی صبح میں ہم لوگوں نے حضرت عثمان کے ہاتھ پر بیعت کی تھی، مسور کا بیان ہے کہ تھوڑی رات گزر جانے کے بعد عبدالرحمن نے میرا دروازہ اس زور سے کھٹکھٹایا کہ میری آنکھ کھل گئی انہوں نے کہا کہ میں تمہیں سوتا ہوا دیکھتا ہوں حالانکہ خدا کی قسم، ان راتوں میں میری آنکھ بھی نہیں لگی، تم چلو اور زبیر کو میرے پاس بلاؤ میں ان دونوں کو بلا لاؤ، چنانچہ میں نے انہیں بھی بلا لیا، ان سے بہت رات گئے تک سرگوشی کرتے رہے، پھر حضرت علی کے پاس سے اٹھے تو ان کے دل میں خلافت کی خواہش تھی، اور عبدالرحمن کو ان کی خلافت سے اختلاف امت کا اندیشہ تھا، پھر عبدالرحمن نے کہا حضرت عثمان کو بلا لاؤ تو ان سے سرگوشی کرتے رہے، یہاں تک کہ صبح کی اذان نے ان کو جدا کیا، جب لوگوں کو صبح کی نماز پڑھائی اور یہ لوگ منبر کے پاس جمع ہوئے تو مہاجرین اور انصار میں سے جو لوگ موجود تھے ان کو بلا بھیجا، اور سردار لشکر کو بلا بھیجا، یہ سب لوگ حج میں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کیساتھ شریک ہوئے تھے، جب سب لوگ جمع ہو گئے تو حضرت عبدالرحمن نے خطبہ پڑھا پھر کہا کہ اما بعد اے علی میں نے لوگوں کی حالت پر نظر کی ہے تو دیکھا کہ وہ عثمان کے برابر کسی کو نہیں سمجھتے ہیں اس لئے تم اپنے دل میں میری طرف سے کچھ خیال نہ کرنا، تو حضرت علی نے (حضرت عثمان سے کہا) میں اللہ اور اس کے رسول اور آپ دونوں خلیفہ کی سنت پر تمہارے ہاتھ پر بیعت کرتا ہوں عبدالرحمن نے بھی بیعت کی اور تمام لوگوں نے مہاجرین و انصار، سرداران لشکر اور مسلمانوں نے بیعت کی۔
مسند احمد:جلد اول:حدیث نمبر 394     
 ابوسلمہ بن عبدالرحمن کہتے ہیں کہ جن دنوں حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ محصور تھے، ایک مرتبہ انہوں نے اپنے گھر کے بالاخانے سے جھانک کر فرمایا کہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر رہنے والوں کو اللہ کا واسطہ دے کر " یوم حراء " کے حوالے سے پوچھتا ہوں کہ جب جبل حراء ہلنے لگا، اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر اپنا پاؤں مار کر فرمایا اے جبل حراء! ٹھہرجا، کہ تجھ پر ایک نبی، ایک صدیق اور ایک شہید کے کوئی نہیں ہے، اس موقع پر میں موجود تھا؟ اس پر کئی لوگوں نے ان کی تائید کی۔ پھر انہوں نے فرمایا کہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر رہنے والوں کو اللہ کا واسطہ دے کر " بیعت رضوان " کے حوالے سے پوچھتا ہوں کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے مشرکین مکہ کی طرف بھیجا تھا اور اپنے ہاتھ کو میرا ہاتھ قرار دے کر میری طرف سے میرے خون کا انتقام لینے پر بیعت کی تھی؟ اس پر کئی لوگوں نے پھر ان کی تائید کی۔ پھر حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر رہنے والوں کو اللہ کا واسطہ دے کر پوچھتا ہوں کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا تھا جنت میں مکان کے عوض ہماری اس مسجد کو کون وسیع کرے گا؟ تو میں نے اپنے مال سے جگہ خرید کر اس مسجد کو وسیع نہیں کیا تھا؟ اس پر بھی لوگوں نے ان کی تائید کی۔ پھر انہوں نے فرمایا کہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ رضی اللہ عنہم کو اللہ کا واسطہ دے کر " جیش عسرۃ " (جو غزوہ تبوک کا دوسرا نام ہے) کے حوالے سے پوچھتا ہوں جب کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا آج کون خرچ کرے گا؟ اسکا دیا ہوا مقبول ہوگا، کیا میں نے اپنے مال سے نصف لشکر کو سامان مہیا نہیں کیا تھا؟ اس پر بھی لوگوں نے ان کی تائید کی۔ پھر انہوں نے فرمایا کہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ رضی اللہ عنہم کو اللہ کا واسطہ دے کر " بیر رومہ " کے حوالے سے پوچھتا ہوں جن کا پانی مسافر تک کو بیچا جاتا تھا، میں نے اپنے مال سے خرید کر مسافروں کے لئے بھی وقف کر دیا، کیا ایسا ہے یا نہیں ؟ لوگوں نے اس پر بھی ان کی تائید کی۔


مسند احمد:جلد اول:حدیث نمبر 495       
 مسلم کہتے ہیں کہ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے اپنی زندگی کے آخری دن اکٹھے بیس غلام آزاد کیے، شلوار منگوا کر مضبوطی سے باندھ لی حالانکہ اس سے پہلے زمانہ جاہلیت یا زمانہ اسلام میں انہوں نے اسے کبھی نہ پہنا تھا اور فرمایا کہ میں نے آج رات خواب میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرات شیخین کو دیکھا ہے یہ حضرات مجھ سے کہہ رہے تھے کہ صبر کرو، کل کا روزہ تم ہمارے ساتھ افطار کروگے، پھر انہوں نے قرآن شریف کا نسخہ منگوایا اور اسے کھول کر پڑھنے کے لئے بیٹھ گئے اور اسی حال میں انہیں شہید کر دیا گیا جب کہ قرآن کریم کا وہ نسخہ ان کے سامنے موجود تھا۔

Mataf Expansion Project


Mataf Expansion Project

____________________

The Custodian of al-Haramain King Abdullah bin Abdul Aziz's Project
to increase the capacity of the Mataf:




-The proposition of a project to increase the capacity of the mataf was shown to King Abdullah in Ramadhan 1432 Hijri who directed to start implementing it.

-King Abdullah assigned the Ministry of Higher Education, General Authority of Masjid al Haram and Masjid al Nabawi and Saudi Bin Laden Group (Working team) to finish the studies on developing the proposed solution.

-The working team recommended a number of studies which were presented to King Abdullah, as follows:

1-Studies regarding air movement in Mataf Expansion and First Saudi Expansion.
2-Studies regarding the building structure of the First Saudi Expansion.
3-Studies regarding Automated systems for Tawaf and Sa'ee for people with special needs.
4-Studies regarding systems for shading the new mataf and the roof of Haram.
5-Studies regarding crowd movement through an integrated system beginning from outside Masjid-al-Haram and the areas surrounding it.

-King Abdullah ordered that these recommended studies be conducted urgently.

-The proposed design was shown to the Supreme Hajj Committee after the Hajj Season of 1432H and they ordered to conduct studies regarding increasing the width of the 

Mataf with repititive floors and studies regarding re-building the structure of the First Saudi Expansion.

-The team of Ministry of Higher Education and General Authority of Masjid-al-Haram and Masjid-al-Nabawi arranged a work shop with the Security forces in the month of 

Rabi-ul-awwal 1433H to inform them about the proposed design and to take their opinion and to find out their demands.

-The meetings of the working team continued in order to develop the proposed solution including the observations and recommendations of the security forces. Some of 

the important observations which were taken into account are:
1-Studying and assessing of the structural system of the First Saudi Expansion.
2-Paying attention to crowd movement and fragmentation of human blocks inside and outside Masjid-al-Haram.
3-To Facilitate the entry and exit movement in the entrances of the Masjid al Haram building so as to provide safety and security to the visitors.
4-Preparing passages and roads leading to Masjid al Haram and developing a guidance system to facilitate the arrival and departure.
5-Developing a system for shading the mataf courtyard and the roof of Masjid al Haram and the external squares surrounding it.
6-Providing specific and separate passages to people with special needs and the elderly and developing an automated system to serve them.
7-The importance of linking (the Mataf) with the Third Saudi Expansion and activating the basement level.

-The Ministry team assigned a number of consulting offices (in the field of structural studies and supporting and re-enforcing structures) to study and assess the structural system of the First Saudi Expansion and its ability to cope with the above-mentioned demands. The results of this study suggested that the current structure was unable to support additional upper floors and future demands.

-The Ministry team and a representative of the Genral Authority recommended that the First Saudi Expansion should be rebuilt complying with the same standards that were used in building the Third Saudi Expansion.

-Based on the above, the proposed project was developed to raise the capacity of the Mataf and the parts attatched to it.

________________________


Current State
First Saudi Expansion

Horizontal Projections

Longitudinal Sector of Mas'aa

Visuals of crowding in the current state



Directives and Standards for the design

-Fragmentation of Human blocks and their distribution on different floors and controlling them from outside the building of Masjid-al-Haram.

-Preseving the old Haram and main gates with minarets as much as possible and rebuilding the First Saudi Expansion taking into account the future vertical expansion.

-Linking the Mataf and Mas'aa floors on the same level.

-Specifying separate floors for people with special needs and the elderly to perform Tawaf and linking them with Mas'aa floors.

-Integration of systems and services, taking into account the future demands like shading and automated tawaf.


Initial Design
Basement Floor



Ground Floor



First Floor



First Floor Mezzanine



Second Floor




Exterior Perspective


-

-

-

-

-

-

-
__________________________

Interior Perspective


-

-

-

-

-

-

-

-

Comparison between Current State, Initial Design and the Mas'aa.

Longitudinal Sector of Mas'aa-Comprehensive solution

حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا یوم شہادت


صحیح مسلم میں ہے کہ ایک دفعہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم اپنے گھر میں آرام فرما رہے تھے کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ تشریف لائے آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) ویسے ہی لیٹے رہے ۔۔۔حضرت ابوبکر (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) بات کر کے چلے گئے۔ ۔
پھر حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ تشریف لائے تو آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) لیٹے رہے حضرت عمر (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) بات کر کے چلے گئے پھر حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ تشریف لائے تو آپ (صلی اللہ علیہ وسلم)ا اُٹھ بیٹھے اور اپنے کپڑے ٹھیک کر لئے۔
یہ دیکھ کر حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بولیں۔۔
یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) ابوبکر(رضی اللہ تعالیٰ عنہ) اور عمر(رضی اللہ تعالیٰ عنہ)کے لئے تو آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نہیں اٹھے۔لیکن عثمان (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) کے لئے اٹھ بیٹھے۔
نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا“ کیا میں اُس شخص سے حیا نہ کروں جس سے فرشتے بھی شرماتے ہیں“۔
حضرتے ابو سعید خذری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی پاک(صلی اللہ علیہ وسلم) کو اوّل شب سے صبح تک حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے لئے دعا مانگتے سنا ہے کہ “اے اللہ ! میں عثمان سے راضی ہوں ‘تو بھی اُس سے راضی ہو جا“۔
نبی پاک (صلی اللہ علیہ وسلم) کی صاجزادی اور جناب عثمان غنی (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) کی اہلیہ حضرت رقیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتی ہیں کہ میں آپ(صلی اللہ علیہ وسلم) کے بالوں میں کنگھی کر رہی تھی کہ آپ(صلی اللہ علیہ وسلم) نے مجھ سے پوچھا ۔
“تمھارے ساتھ عثمان کا سلوک کیسا ہے؟“۔میں نے عرض کی۔۔“یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) بہت اچھا ہے“۔
اِس پر نبی (صلی اللہ علیہ وسلم ) نے فرمایا “میری بیٹی اُن کی تکریم کیا کرو وہ اخلاق میں سب صحابہ کرام(رضی اللہ تعالیٰ عنہ) سے زیادہ مجھ سے مشابہ ہیں“۔
علامہ زمخشری نے “الموافقہ بین اہل بیت و الصحابہ “ میں عبد خیر کی ایک طویل رویت درج کی ہے جس کا خلاصہ ہے کہ میں نے میدان ِ کوفہ میں حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو وضو کروایا وہ بولے ۔۔اے عبدِ خیر پوچھو جو پوچھنا چاہتے ہو۔
میں نے عرض کیا اے امیر المومینین کیا پوچھوں۔۔
فرمانے لگے جس طرح تم نے مجھے وضو کروایا ہے اِ سی طرح میں نے ایک دفعہ اللہ پاک کے آخری رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو وضو کروایا تھا ۔وضو کے بعد میں نے اُن سے پوچھا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) قیامت کے روز سب سے پہلے حساب کے لئے کون بلایا جائے گا؟۔
نبی پاک(صلی اللہ علیہ وسلم) نے یکِ بعد دیگر ے چار نام لئے ،محمد(صلی اللہ علیہ وسلم)،ابوبکر(رضی اللہ تعالیٰ عنہ) عمر(رضی اللہ تعالیٰ عنہ) علی(رضی اللہ تعالیٰ عنہ)۔
جو باری باری اپنے رب کے حضور ایک مدت،دو گنی مدت،تین گنی مدت اور چار گنی مدت کے بالترتیب کھڑے ہوں گے اور مغفرت کے بعد واپس آ جا ئیں گے۔میں نے عرض کی یا رسول اللہ(صلی اللہ علیہ وسلم) عثمان بن عفان (رضی اللہ تعالیٰ عنہ)؟۔
یعنی اآپ(صلی اللہ علیہ وسلم) اُن کا نام نہیں لیا۔
نبی پاک(صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا کہ چونکہ عثمان (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) میں بہت حیا ہے اِس لئے میں نے اللہ پاک سے دعا کی تھی کہ اُن کو حساب کے لئے کھڑا نی کیا جائے اللہ پاک نے میری شفاعت قبول فرما لی۔۔
حضرت عثمان غنی (رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا خاندان اور قبولِ اسلام۔۔
حضرت عثمان غنی کا سلسلہ نسب پانچویں پشت میں عبد مناف پر نبی (صلی اللہ علیہ وسلم ) سے جا ملتا ہے۔
حضرت عثمان کی نانی بیضا (ام الحکیم) حضرت عبد اللہ بن عبد المطلب کی سگی بہن ہیں ۔اور رسول پاک (صلی اللہ علیہ وسلم) کی پھو پھی ہیں۔۔
آپ (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) کا تعلق قبیلہ قریش کی ایک اہم شاخ بنو امیہ سے تھا۔آپ(رضی اللہ تعالیٰ عنہ) کے والد گرامی کا نام عفان تھا۔۔آپ نبی پاک(صلی اللہ علیہ وسلم) سے چھ سال چھوٹے تھے۔۔آپ(رضی اللہ تعالیٰ عنہ) کا پیشہ تجارت تھا اور مکہ کے امیر لوگوں میں شمار ہوتے تھے۔۔
ذوالنورین۔۔۔
نبی پاک (صلی اللہ علیہ وسلم) نے پہلے حضرت رقیہ (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) کی شادی جناب عثمان سے کی پھر اُنکی وفات کے بعد دوسری صاجزادی ام کلثوم (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) بھی جناب عثمان (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) سے بیاہ دیں ۔۔اِس لئے آپ(رضی اللہ تعالیٰ عنہ) کو ذوالنورین کا خطاب ملا۔۔۔
کچھ عرصہ بعد جب حضرت ام کلثوم (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) بھی فوت ہو گئیں تو نبی پاک (صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا کہ اگر میری کوئی اور بیٹی بھی ہوتی تو وہ عثمان (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) کو دے دیتا۔۔۔ایک دوسری روایت میں ہے کہ نبی پاک (صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا کہ اگر میری دس بیٹیاں بھی ہوتیں تو اُن سب کی (یکے بعد دیگرے) تم سے شادی کر دیتا۔۔۔(بحوالہ حضرت عثمان(رضی اللہ تعالیٰ عنہ) کے سرکاری خطوط ص 33)
کاتب وحی۔۔۔۔
حضرت عثمان (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) نے ایک مدت تک کاتب وحی کی زمہ داری انجام دی جو کہ ایک سعادت ہے ۔۔ایسے لوگوں کی تعریف قرآن میں بھی آئی ہے۔۔۔اِس کے علاوہ آپ (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) نے نبی پاک (صلی اللہ علیہ وسلم) کے نجی خطوط بھی کافی عرصہ لکھے۔۔آپ حافظ قرآن تھے اور نبی پاک (صلی اللہ علیہ وسلم) سے کافی انسیت اور تعلق کی بنا پر احادیث کا بیش بہا ذخیرہ آپ کے ذہن میں تھا۔
حبشہ کی جانب ہجرت!۔
کفار کے ظلم سے تنگ آ کے نبی پاک(صلی اللہ علیہ وسلم) کے حکم سے اپنی بیوی جناب رقیہ کے ساتھ حبشہ کی طرف ہجرت کی۔۔یہ پہلا قافلہ تھا جس نے اسلام کے لئےہجرت کی۔۔۔
خلافت اور شہادت
حضرت عمر فاروق (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) کی شہادت کے بعد آپ (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) خلیفہ بنے۔۔۔آپ ہر تین یا چھ ماہ بعد گوورنروں اور عمال حکومت کے نام ہدایات جارئ کرتے تھے۔۔۔اور پوری حکومتی مشنری کو عدل وا نصاف کے تقاضے پورے کرنے کی تلقین کرتےتھے۔۔

مصر کے بلوائی آپ کو شہید کرنے کے درپے تھے۔۔۔۔اور مختلف سازشوں میں مصروف رہتے تھے۔۔۔۔پھر ساڑھے سات سو بلوایئوں نے ایک خط کابہانہ بنا کر مدینہ پہنچ کر بغاوت کا وہ وقت طے کیا جب مدینہ منورہ کے زیادہ تر لوگ حج کے لئے مکہ گئے ہوئے تھے۔۔
پھر اِن بلوائیوں نے سازش کے تحت مدینہ منورہ پر قبضہ کر کے 35 ہجری میں زیقعد کے پہلے عشرہ میں جناب عثمان غنی (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) کے گھر کا محاصرہ کر لیا۔۔۔۔۔اور آپ(رضی اللہ تعالیٰ عنہ) کا چالیس روز تک کھا نا اور پانی بند کر دیا۔۔۔
اِس دوران جناب علی (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) نے دیگر صحابہ (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) کے ساتھ مل کر باغیوںکا سر قلم کرنے کی اجازت چاہی مگر آپ نہ مانے اور فرمایا کہ“ مجھ سے یہ نہیں ہو گا کہ نبی (صلی اللہ علیہ وسلملی اللہ علیہ وسلم) کا خلیفہ ہو اور آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) کی امت کا ہی خون بہاؤں“۔
ایک موقعہ پر نبی پاک (صلی اللہ علیہ وسلم) نے مجھ سے فرمایا تھا کہ“ اے عثمان (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) ! اللہ پاک تجھے خلافت کی قمیض پہنائیں گے ۔۔جب منافق اِس خلافت کی قمیض کو اتارنے کی کوشش کریں تو اِسے مت اتارنا یہاں تک کہ مجھے آ ملو(یعنی شہید ہو جاؤ)“۔
آپ (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) نے صحابہ (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) سے فرمایا کہ “نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) نے مجھ سے عہد لیا تھا کہ منافق خافت کی قمیض اتارنے کی کوشش کریں گے تم نہ اتارنا۔۔۔۔چنانچہ میں اِس عہد پر قائم ہوں اور صبر کر رہا ہوں“۔
حافظ عماد الدین نے “البدایہ والنھایہ“ میں لکھا ہے کہ باغیوں کی شورش میں سیدنا عثمان غنی (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) نے صبر کادامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا۔۔۔محاصرہ کے دوران آپ(رضی اللہ تعالیٰ عنہ) کا کھانا پینا بند کر دیا گیا۔۔۔چالیس روز کے بھوکے پیاسے 82 سالہ مظلوم اور معصوم خلیفہ حضرت عثمان غنی (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) ذوالنورین کو جمعۃ المبارک 18 زوالحجہ کو روزہ کی حالت میں انتہائی بے دردی سے شہید کر دیا گیا۔۔۔آپ(رضی اللہ تعالیٰ عنہ) کو بچاتے بچاتے آپ(رضی اللہ تعالیٰ عنہ) کی زوجہ محترمہ حضرت نائلہ(رضی اللہ تعالیٰ عنہا) کی دو انگلیاں بھی کٹ گئیں۔۔۔
آپ(رضی اللہ تعالیٰ عنہ) نے 12 دن کم 12 سال تک اسلامی سلطنت قائم کر نے اور نظامِ خلافت کو چلانے کے بعد جامِ شہادت نوش کیا۔۔۔۔

پرانی تصویریں

1- سعودی توسیع  1955
2- جناب ابوطالب رضی اللہ تعالی عنہ کا گھر مکہ مکرمہ
3- خانہ کعبہ میں سیلاب کا پانی 1941
4- خانہ کعبہ میں سیلاب کا پانی 1941

5- محراب تہجد مدینہ منورہ
6- محراب تہجد مدینہ منورۃ
7- خانہ کعبہ میں سیلاب کا پانی 1941


8-صحابہ اکرام رضی اللہ تعالی عنہما کے گھروں کا تصوراتی نقشہ مدینہ منورہ


9- خانہ کعبہ کی اندورنی توزین و آرائش کا مرحلہ
10- خانہ کعبہ کا پرانا تالہ
11- حضرت ابراہیم علیہ سلام کے پاوں کا نشان 
12- حرام مکی کی نادر تصویر
13- حضرت آمنہ رضی اللہ تعالی عنہا کی قبر مبارک ابوا
14- کعبہ کی پرانی تصویر
15- کعبہ کی پرانی تصویر

16- مکہ مکرمہ کی پرانی تصویر



 

Sample text

Sample Text

Sample Text