Pages

Ads 468x60px

میں تو خود ان کے در کا گدا ہوں


میں تو خود ان کے در کا گدا ہوں اپنے آقا کو میں نذر کیا دوں
اب تو آنکھوں میں بھی کچھ نہیں ہے ورنہ قدموں میں آنکھیں بچھا دوں
آنے والی ہے ان کی سواری  پھول نعمتوں کے گھر گھر سجادوں
میرے گھر میں اندھیرا بہت ہے اپنی پلکوں پہ شمعیں جلا دوں
میری جھولی میں کچھ بھی نہیں ہے میرا سرمایہ ہے تو یہی ہے
اپنی آنکھوں کی چاندی بہادوں اپنے ماتھے کا سونا لٹا دوں
میرے آنسو بہت قیمتیں ہیں ان سے وابستہ ہیں انکی یادیں
ان کی منزل ہے خاک مدینہ یہ گوہر یوں ہی کیسے لٹا دوں
قافلے جا رہے ہیں مدینے اور حسرت سے میں تک رہا ہوں
یا لپٹ جاوں قدموں سے ان کے یا قضا کو میں اپنی صدا دوں
میں فقط آپ کو جانتا ہوں اور اسی در کو پہچانتا ہوں
اس اندھیرے میں کس کو پکاروں آپ فرمائیں کس کو صدا دوں؟
میری بخشش کا ساماں یہی ہے اور دل کا ارماں یہی ہے
ایک دن انکی خدمت میں جا کر ان کی نعتیں انہی کو سنا دوں
بے نگاہی پہ میری نہ جائیں دیدہ ور میرے نزدیک آئیں
میں یہیں سے مدنیہ دکھا دوں دیکھنے کا سلقیہ بتا دوں
 

Sample text

Sample Text

Sample Text